محمد جمشیدی نے آج بروز جمعہ یوکرائن پر ہونے والے بحران کے حل کے حوالے سے کہا کہ نیٹو کی فوجی ترقی پر روس کی سلامتی کی تشویش پوری طرح سے قابل فہم ہے لیکن اس کے باوجود اس بحران کے حل کا راستہ مذاکرات اور سفارتکاری ہے اور اس بحران میں عوام کے مفادات اور شہریوں کے جان و مال کا احترام کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران اور روس کے صدور کے درمیان گزشتہ رات ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی بات چیت کا بنیادی محور جوہری مذاکرات اور گزشتہ ماہ ہمارے صدر کے دورہ ماسکو کے دوران طے پانے والے معاہدوں پر عمل درآمد کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مختلف ممالک کے درمیان مختلف قسم کے مذاکرات ہوتے ہیں مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں فرانس اور روس کے صدور کے ساتھ الگ الگ ٹیلی فونک رابطے، اور ان سفارتی بات چیتوں خاص طور پر ممالک کے سربراہوں کے درمیان بات چیت کی ہم آہنگی ایک وقت طلب کام ہے۔
ایرانی صدارتی دفتر کے نائب برائے سیاسی امور نے گزشتہ رات کے ٹیلی فونک رابطے میں پیوٹن کی طرف سے اٹھائے گئے مسائل میں سے ایک مسئلہ "مشرقی یورپ اور یوکرین میں بحران" تھا۔
انہوں نے اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کے سرکاری موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کی اعلان کردہ پالیسی دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 6 مہینوں میں حکومت واضح طور پر اس پالیسی میں کامیاب رہی ہے اور اس عرصے کے دوران ایرانی صدر مملکت نے 4ممالک کا دورہ کیا ہے اور ملک کی اقتصادی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
جمشیدی نے اس بات پر زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعامل کا خواہاں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم خطے اور دنیا کے دیگر حصوں میں ہونے والی سیکورٹی اور اسٹریٹجک تبدیلیوں سے پوری طرح آگاہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہ قفقاز سے متعلق مسئلہ جو کہ نازک موڑ پر پہنچ گیا تھا، ایران اور کچھ دوسرے ممالک کے فعال کردار کے ساتھ حل کیا گیا ہے، اور 13ویں حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغانستان میں ہونے والی پیش رفت سے ایک بہت اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ مغربی ایشیا اور خلیج فارس کے مختلف حصوں کے ساتھ ساتھ مشرقی ایشیاء اور یورپ میں سیکورٹی کے نئے منصوبے بنا رہا ہے اور یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت ایک تبدیلی ہے جس کی جڑیں جغرافیائی اور شناختی ہیں۔
جمشیدی نے کہا کہ نیٹو نے دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے بعد مغربی ممالک کے درمیان فوجی اتحاد پیدا کرنے کے مقصد سے سوویت یونین کے خلاف کھڑے ہونے کی کوشش کی جس کا مرکز امریکہ تھا اور سوویت یونین کے خاتمے اور وارسا معاہدے کے بعد نیٹو اپنے راستے کو جاری رکھا جو روسی صدر کے اہم خدشات میں سے ایک ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
https://twitter.com/IRNAURDU1
آپ کا تبصرہ